پھونکے دیتا ہے کسی کا سوز پنہانی مجھے
پھونکے دیتا ہے کسی کا سوز پنہانی مجھے
اب تو میری آنکھ بھی دیتی نہیں پانی مجھے
موت سے اور مرتے دم ہو یوں پشیمانی مجھے
اتنا ہلکا کر نہ اے طرز گراں جانی مجھے
مرتے دم کرنی پڑی ہے ان کی مہمانی مجھے
سخت مشکل ہو گئی ہے میری آسانی مجھے
بحر الفت دے گا لطف سوز پنہانی مجھے
آگ کے اندر جلانے لے چلا پانی مجھے
گور دیتی ہے نوید رسم مہمانی مجھے
گھر بسانے لے چلی ہے میری ویرانی مجھے
کھینچنے دے زحمت چاہ زنخدانی مجھے
اے مقدر کچھ دنوں بھرنے دے یہ پانی مجھے
سینچتی ہے الفت چاہ زنخدانی مجھے
دے رہا ہے میرے یوسف کا کنواں پانی مجھے
وقت آخر یاد ہے ساقی کی مہمانی مجھے
مرتے مرتے دے دیا انگور کا پانی مجھے
وہ مری صورت تو دیکھیں اپنی صورت کے لیے
کاش آئینہ بنا دے میری حیرانی مجھے
کٹ گیا ہے وصل سے پہلے زمانہ عمر کا
ہائے دھوکا دے گیا بہتا ہوا پانی مجھے
دامن صحرا سے لوں گا مر کے وحشت میں کفن
اک نیا جوڑا پنہائے گی یہ عریانی مجھے
مرے گل کو لا یہ اپنے پھول لے جا عندلیب
ایسے کانٹوں سے نہیں پھانسیں نکلوانی مجھے
تم اگر چاہو تو مٹی سے ابھی پیدا ہوں پھول
میں اگر مانگوں تو دریا بھی نہ دے پانی مجھے
تشنہ کامی اس کو کہتے ہیں کہ بحر عشق میں
میں اگر اتروں تو اوپر پھینک دے پانی مجھے
ایسی مشکل تم نے ڈالی ہے کہ جب مر جاؤں گا
مدتوں رویا کرے گی میری آسانی مجھے
- کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 38)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.