نہ جانے کیسی گڑی ہوئی ہے نہ جانے کیسی لگی ہوئی ہے
نہ جانے کیسی گڑی ہوئی ہے نہ جانے کیسی لگی ہوئی ہے
وہ تیری چٹکی سے بھی نہ نکلی جو پھانس دل میں چھبی ہوئی ہے
الٰہی جانوں کی خیر کرنا وہ تیغ ابرو کھینچی ہوئی ہے
کسی کی آنکھوں کا سامنا ہے قضا کی کھڑکی کھلی ہوئی ہے
تمہارے تلووں کے آرزو میں پسی ہوئی ہے گھلی ہوئی ہے
حنا کی سرسبز پتیوں میں جو لال رنگت چھپی ہوئی ہے
بگاڑ قسمت کا کیا بتاؤں جو ساتھ میرے لگی ہوئی ہے
کہیں کہیں سے کٹی ہوئی ہے کہیں کہیں سے مٹی ہوئی ہے
وہ نوجوانی کہاں سے آئے جو داغ دے کر گئی ہوئی ہے
زمیں پہ کیوں کر اسے اتاروں جو دھوپ کوٹھے چڑھی ہوئی ہے
ہمارے خون وفا کی رنگت نظر میں ناحق جمی ہوئی ہے
لہو میں پھر اپنے ہاتھ بھرنا ابھی تو مہندی رچی ہوئی ہے
وجود آتش تو اب ہوا ہے میں اس کے پہلے سے جل رہا ہوں
مرے کلیجے کے دکھ نہ پوچھو لگی سے پہلے لگی ہوئی ہے
- کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 46)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.