دم آخر مصیبت کاٹ دو بہر خدا میری
دم آخر مصیبت کاٹ دو بہر خدا میری
تم آکر درد کے پردے میں کر جاؤ دوا میری
محبت بت کدے میں چل کے اس کا فیصلہ کر دے
خدا میرا خدا ہے یا یہ مورت ہے خدا میری
یہاں سے جب گئی تھی تب اثر پر خار کھائے تھی
وہاں سے پھول برساتی ہوئی پلٹی دعا میری
تو ہی کہہ دے یہ جسم زار میرا ہے کہ تیرا ہے
تو ہی کہہ دے یہ روح ناتواں تیری ہے یا میری
پڑا ہے تفرقہ جس دن سے کیا کیا یاد کرتی ہے
ادھر مجھ کو جفا تیری ادھر تجھ کو وفا میری
مقید ہو کے لطف ہستئ آزاد بھی کھویا
وہ کیا تھی ابتدا میری یہ کیا ہے انتہا میری
وہاں جب تھے تو جسم ناتواں میں روح پھونکی تھی
یہاں جس دن سے آئے آپ بن بیٹھے قضا میری
میان حشر یہ کافر بڑے اترائے پھرتے ہیں
مزا آ جائے ایسے میں اگر سن لے خدا میری
کسی کا جلوۂ رنگیں یہ کہتا ہے انہیں پوجو
یہ اس پتھر کے بت ہیں جس پہ پستی تھی حنا میری
نہ جانے کون سے یوسف کا جلوہ مجھ میں پنہاں ہے
زلیخا آج تک کرتی ہے مضطرؔ التجا میری
- کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 50)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.