یہ ناحق انکسار جلوۂ حیرت فزا کیوں ہے
یہ ناحق انکسار جلوۂ حیرت فزا کیوں ہے
اگر اچھے نہیں ہو تم تو عالم مبتلا کیوں ہے
خدا جانے طریقہ حسن و الفت کا جدا کیوں ہے
میں اتنا با وفا کیوں ہوں وہ اتنا بے وفا کیوں ہے
عدو کو کیوں الگ کرتے ہو رسم جور بے جا میں
وفاؤں میں تو شامل تھا جفاؤں میں جدا کیوں ہے
وہ سن کر شکوۂ عشق عدو کس ناز سے بولے
تمہارا مبتلا ہوگا ہمارا مبتلا کیوں ہے
محبت اس پہ ظاہر حضرت دل کیجیے لیکن
جواب آپ اس کا کیا دیں گے اگر اس نے کہا کیوں ہے
ذرا تم پھر یہ کہہ دو سن کے شکوہ رشک دشمن کا
گوارا جب نہیں پھر چاہنے کا حوصلا کیوں ہے
تم اپنے جور میں دشمن کا حصہ کیوں لگاتے ہو
ستم میں یہ ستم کیوں ہے جفا میں یہ جفا کیوں ہے
حسینوں پر نہیں مرتا میں اس حسرت میں مرتا ہوں
کہ ایسے ایسے لوگوں کے لیے ظالم قضا کیوں ہے
وہ کہتے ہیں کہ کیوں جی جس کو تم چاہو وہ کیوں اچھا
وہ اچھا کیوں ہے اور ہم جس کو چاہیں وہ برا کیوں ہے
وہ پہلی سب وفائیں کیا ہوئیں اب یہ جفا کیسی
وہ پہلی سب ادائیں کیا ہوئیں اب یہ ادا کیوں ہے
ترا ترک ستم بھی اک ستم ہے یہ ستم کیسا
تری ترک جفا بھی اک جفا ہے یہ جفا کیوں ہے
غبار ناتواں کیوں ان کے کوچے سے اڑاتی ہے
مٹے تو ہم تجھے اتنی کدورت اے صبا کیوں ہے
خدا سے مانگتا ہوں موت اپنی اس لیے مضطرؔ
یہ سننا ہے کسی سے کیوں یہ مرنے کی دعا کیوں ہے
- کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 69)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.