رہے ہم راز دار الفت پردہ نشیں برسوں
رہے ہم راز دار الفت پردہ نشیں برسوں
چھپایا جیب کے پردے میں چاک آستیں برسوں
پس مردن مرا ماتم رہے گا ہر کہیں برسوں
لہو روئے گا گردوں خاک اڑائے گی زمیں برسوں
کچھ ایسا بن پڑا نقشہ کہ سب نقشوں سے اچھا تھا
رہا خود محو شکل یار صورت آفریں برسوں
مری تربت پہ پھول اس نے چڑھا کر یہ دعا مانگی
خداوندا پھلی پھولی رہے یہ سر زمیں برسوں
رہے جامے سے باہر دست وحشت جوش وحشت میں
جنوں میں ہم نے پہنا جامۂ بے آستیں برسوں
محبت میں مٹایا مدتوں تقدیر کا لکھا
گھسی سنگ در دل دار پر اپنی جبیں برسوں
ہمارا دم نہیں نکلے گا جب تک تم نہ آؤ گے
تمہاری راہ دیکھے گی نگاہ واپسیں برسوں
نہ تم آئے نہ اپنی یاد کو بھیجا مرے دل میں
یہ وہ گھر ہے کہ جس کو تم نے رکھا بے مکیں برسوں
ہمارے جوش وحشت پر گریباں مسکرایا ہے
ہنسا ہے بخیۂ دامن پہ چاک آستیں برسوں
ادھر ہر وار پر قاتل کو برسوں لطف آیا ہے
ادھر ہر زخم نے دی ہے صدائے آفریں برسوں
دم آخر تو آ کر مشکلیں آسان کر جاؤ
دعائیں آپ کو دے گی مری جان حزیں برسوں
وہی اب بعد مردن قبر پر آنسو بہاتے ہیں
نہ آیا تھا جنہیں میری محبت کا یقیں برسوں
جدائی میں یہ دھڑکا تھا کہ آنچ ان پر نہ آ جائے
بجھائی آنسوؤں سے ہم نے آہ آتشیں برسوں
اگر اس بت کا جلوہ دیکھ لے چکر میں آ جائے
سر بازار ناچے زاہد خلوت نشیں برسوں
غضب دیکھو بتوں نے اس سے اپنا نام جپوایا
رہی تھی جس زباں پر یاد رب العالمیں برسوں
مجھے ناشاد کر کے آسماں راحت نہ پائے گا
مجھے برباد کر کے خاک چھانے گی زمیں برسوں
مرے ماتم میں کاجل بن کے ارماں بہہ گیا مضطرؔ
لہو کے آنسوؤں روئی وہ چشم سرمگیں برسوں
اسی کی دست وحشت نے اڑا دیں دھجیاں مضطرؔ
رہی تھی دیدۂ نمناک پر جو آستیں برسوں
- کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 152)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.