اے عشق عطا کر دے ایسا مجھے کاشانہ
اے عشق عطا کر دے ایسا مجھے کاشانہ
جو کعبے کا کعبہ ہو بت خانے کا بت خانہ
محروم تجلی ہے مدت سے یہ کاشانہ
آ جا مرے مدفن میں او جلوۂ جانانہ
ساقی کو دکھاؤں گا یہ شان فقیرانہ
پھوٹی ہوئی اک بوتل ٹوٹا ہوا پیمانہ
ساغر ہے نہ مینا ہے شیشہ ہے نہ پیمانہ
جس دن سے گیا ساقی سنسان ہے مے خانہ
اک ایسی جھلک دے جا او جلوۂ جانانہ
لیلیٰ بھی پکار اٹھے مجنوں تو تھا دیوانہ
چھیڑو نہ فرشتو تم ذکر غم جانانہ
کیوں یاد دلاتے ہو بھولا ہوا افسانہ
یوں حشر میں اٹھا ہے ساقی ترا مستانہ
اک ہاتھ میں بوتل ہے اک ہاتھ میں پیمانہ
ہے الفت ساقی میں مشرب مرا رندانہ
اے پیک قضا تو ہی بھر دے مرا پیمانہ
مٹی مری دامن سے ساقی نے چھڑا ڈالی
میں تو یہ سمجھا تھا بن جائے گا پیمانہ
یہ چشم حقیقت بیں کیا دیکھے سوا تیرے
سجدے سے ہمیں مطلب کعبہ ہو کہ بت خانہ
اے جلوے کی نیرنگی کچھ نام تو روشن کر
دامان تجلی پر لکھ دے مرا افسانہ
یا رب مرے لینے کو کیوں تو نے قضا بھیجی
اپنوں کو کبھی لینے آتا نہیں بیگانہ
اے جلوۂ صد خلوت کب تم میں رہوں مضطرؔ
لے لے مری ہشیاری کر دے مجھے دیوانہ
- کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 168)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.