حجاب خاص کے پردے اٹھے ہیں کیف و مستی میں
حجاب خاص کے پردے اٹھے ہیں کیف و مستی میں
نہ جانے کس کی ہستی دیکھتا ہوں اپنی ہستی میں
نہ بہکا آج تک میں نشۂ الفت کی مستی میں
بتوں کو بھی اگر پوجا تو پوجا حق پرستی میں
نہ سوئے چادر گل پر کبھی دنیا کی بستی میں
سدا کانٹے ہی چنتے کٹ گئی گلزار ہستی میں
لگی اس شعلۂ رخسار کی باقی رہی یونہی
تو سن لینا کہ اک دن مر گیا آتش پرستی میں
مری تربت پہ خود ساقی نے آ کر یہ دعا مانگی
خدا بخشے بہت اچھی گزاری مے پرستی میں
مرے قاتل کی جلدی نے مجھے ناکام ہی رکھا
تمنا دیکھنے کی بھی نہ نکلی تیز دستی میں
برنگ کاسۂ تقدیر گردش ہی میں دن گزرے
پیالہ بن کے میں نے عمر کاٹی مے پرستی میں
نرالی شان سے نکلا ہوں تیری جستجو کرنے
محبت رہنمائی میں ہے وحشت سر پرستی میں
تلاش بت میں مجھ کو دیکھ کر جنت میں سب بولے
یہ کافر کیوں چلا آیا مسلمانوں کی بستی میں
بیابان غریبی میں بسر کرتا ہوں مدت سے
وطن جس دن سے چھوڑا جی نہیں لگتا ہے بستی میں
- کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 172)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.