بتوں میں نور ذات کبریا معلوم ہوتا ہے
بتوں میں نور ذات کبریا معلوم ہوتا ہے
مجھے کچھ دن سے ہر پتھر خدا معلوم ہوتا ہے
حجاب عشق میں بت کبریا معلوم ہوتا ہے
بڑے سنگین پردے میں خدا معلوم ہوتا ہے
مرض الفت کا پیغام قضا معلوم ہوتا ہے
یہ درد لا دوا مجھ کو دوا معلوم ہوتا ہے
میان تشنگی پیاسوں نے ایسی لذتیں لوٹیں
کہ آب تیغ قاتل بے مزا معلوم ہوتا ہے
نہ پوچھو کیوں میں کعبے جا کے بت خانے چلا آیا
اکیلا گھر تو دنیا کو برا معلوم ہوتا ہے
مدینہ جا کے کوئی تشنہ لب واپس نہیں آتا
یہ ساقی بھی سخاوت میں خدا معلوم ہوتا ہے
میں اتنا عرش سے اونچا گیا زور محبت میں
کہ اوپر سے بہت نیچے خدا معلوم ہوتا ہے
وہاں جا کر کیے ہیں میں نے سجدے اپنی ہستی کو
جہاں بندہ پہنچ کر خود خدا معلوم ہوتا ہے
خدا بھی جب نہ ہو معلوم تب جانو مٹی ہستی
فنا کا کیا مزا جب تک خدا معلوم ہوتا ہے
بتوں کے عشق میں غفلت کے پردے اٹھ گئے مضطرؔ
جب آنکھیں بند کرتا ہوں خدا معلوم ہوتا ہے
- کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 175)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.