دم خواب رحمت بلایا انہوں نے تو درد نہاں کی کہانی کہوں گا
دم خواب رحمت بلایا انہوں نے تو درد نہاں کی کہانی کہوں گا
مرا حال لکھنے کے قابل نہیں ہے اگر مل گئے تو زبانی کہوں گا
لب جوئے الفت رمائی ہے دھونی یہاں قصۂ سخت جانی کہوں گا
ادھر آ ادھر روح شیریں ادھر آ ترے کوہ کن کی کہانی کہوں گا
خضر تیرے چشمے کا پانی ہے اچھا مگر میں اسے موج فانی کہوں گا
محبت کا مارا ہوا دل جلا دے میں تب تیرے پانی کو پانی کہوں گا
ازل میں ہی تجھ پر نظر پڑ چکی ہے نہ کر مجھ سے انکار جلوہ نمائی
تجلی تری گو نئی روشنی ہے مگر میں تو اس کو پرانی کہوں گا
محبت میں انکار جلوہ نمائی ذرا اس طریقے کو تو یاد رکھنا
اگر میں کبھی تیرے درجے پہ پہنچا تو میں بھی یوں ہی لن ترانی کہوں گا
تری ذات واحد ہے بیدار مطلق تجھے تو کبھی نیند آتی نہیں ہے
تری آنکھ لگنے کی حسرت میں یا رب کہاں تک میں قصے کہانی کہوں گا
وہ اک آئینہ جس میں منہ دیکھتے ہیں کسی ایک کا وقف صورت نہیں ہے
یہیں سے نتیجہ اٹھا کر دوئی کا میں وحدت کو کثرت کا بانی کہوں گا
یہ ہستی کا شیشہ جو تو نے دیا ہے ذرا اس پہ چاہت کی صیقل تو کر لوں
یہ ہو جائے پھر اپنی صورت کو میں بھی تری ذات کا نقش ثانی کہوں گا
میں کیا بے وفا ہوں کہ محشر میں قاتل خدا سے کروں شکوۂ قتل اپنا
زمانہ کہے خون ناحق بہایا اگر مجھ سے پوچھا تو پانی کہوں گا
کبھی باغباں نے بلایا جو مضطرؔ تو کانٹے دکھاؤں گا جو چبھ چکے ہیں
کلیجے میں کھٹکے وہ چرچا کروں گا جو دل میں چبھے وہ کہانی کہوں گا
- کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 198)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.