محبت کی بے ہوشیاں دیکھتا ہوں
محبت کی بے ہوشیاں دیکھتا ہوں
ہوں بے خود مگر مستیاں دیکھتا ہوں
غریق فنا ہستیاں دیکھتا ہوں
تلاطم کی نیرنگیاں دیکھتا ہوں
شراب محبت نے کھولی ہیں آنکھیں
ترے حسن کی گرمیاں دیکھتا ہوں
بہت یاد آتی ہے چشم تغافل
کلیجے میں جب برچھیاں دیکھتا ہوں
جنون محبت کی آتی ہیں یادیں
گریباں کی جب دھجیاں دیکھتا ہوں
انہوں نے کبھی تیرا دامن نہ تھاما
میں روتا ہوں جب انگلیاں دیکھتا ہوں
یہ کوہ الم کیوں اٹھاتا میں لیکن
ترے واسطے سختیاں دیکھتا ہوں
یہ بجلی بھی اس کی یہ تنکے بھی اس کے
میں کیوں جانب آشیاں دیکھتا ہوں
نشیمن مرا کاش پتے چھپا لیں
چمکتے ہوئے بجلیاں دیکھتا ہوں
بتوں سے بچا تھا کہ پوجوں گا تجھ کو
مگر اس میں بھی سختیاں دیکھتا ہوں
فلک پھونک دیتا نہ آہوں سے مضطرؔ
نہ جانے میں کیا درمیاں دیکھتا ہوں
- کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 237)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.