الٰہی خیر زوروں پر بتان پر غرور آئے
الٰہی خیر زوروں پر بتان پر غرور آئے
کہیں ایسا نہ ہو ایمان عالم میں فتور آئے
یہی صورت وہاں تھی بے ضرورت بت کدہ چھوڑا
خدا کے گھر میں رکھا کیا ہے ناحق اتنی دور آئے
بتوں سے ہم حصول صبر کی امید کیوں رکھیں
یہ کیا دیں گے خدا کے پاس سے خود ناصبور آئے
مقام گور تو اے حضرت دل پہلی منزل ہے
ابھی چلنا پڑے گا یہ نہ پوچھو کتنی دور آئے
تمہاری جلوہ گاہ ناز میں اندھیر ہی کب تک
یہ موسیٰ دوڑ کر کس کو دکھانے شمع طور آئے
محبت ایک شے ہوتی ہے اتنا سن تو اب رکھو
سمجھ اس وقت لینا جب جوانی میں شعور آئے
تم اپنی زلف کھولو پھر دل پر داغ چمکے گا
اندھیرا ہو تو کچھ کچھ شمع کی آنکھوں میں نور آئے
وہاں تو حضرت زاہد تمہیں اچھوں سے نفرت تھی
یہاں جنت میں اب کس منہ سے تم لینے کو حور آئے
مسافت منزل مقصود کی ہم سے کوئی پوچھے
ہمارا ہی کلیجہ جانتا ہے جتنی دور آئے
خدا سرکار کے اقبال و دولت میں ترقی دے
رساؔ و بزمؔ و مضطرؔ جن کے دم سے رامپور آئے
- کتاب : خرمن حصہ ۱ (Pg. 269)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.