کچھ ایسا درد شور قلب بلبل سے نکل آیا
کچھ ایسا درد شور قلب بلبل سے نکل آیا
کہ وہ خود رنگ بن کر چہرۂ گل سے نکل آیا
حقیقت کا نشاں چشم تامل سے نکل آیا
ہمارے جزو ہستی کا پتہ کل سے نکل آیا
بتایا حال یوں کوزے میں دریا کے سمانے کا
کہ ساقی خود مجسم ساغر مل سے نکل آیا
کسی کی بے نیازی پر میں اپنی جان دیتا ہوں
گلے کے واسطہ تیغ تغافل سے نکل آیا
اندھیرا قبر کا دیکھا تو پھر یاد آ گئے گیسو
میں سمجھا تھا کہ اب میں تیرے کاکل سے نکل آیا
میں سمجھوں گا کہ میرے داغ عصیاں دھل گئے سارے
اگر آنسو تری چشم تغافل سے نکل آیا
اذان پنج وقتہ پر کبھی منہ سے نہیں بولا
مگر رندوں نے جب فریاد کی غل سے نکل آیا
قناعت دوسرے کے آسرے کا نام ہے مضطرؔ
خدا ہے جو کوئی حد توکل سے نکل آیا
- کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 164)
- Author : مضطر خیرآبادی
- مطبع : جاوید اختر (2015)
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 72)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.