Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

کچھ ایسا درد شور قلب بلبل سے نکل آیا

مضطر خیرآبادی

کچھ ایسا درد شور قلب بلبل سے نکل آیا

مضطر خیرآبادی

MORE BYمضطر خیرآبادی

    کچھ ایسا درد شور قلب بلبل سے نکل آیا

    کہ وہ خود رنگ بن کر چہرۂ گل سے نکل آیا

    حقیقت کا نشاں چشم تامل سے نکل آیا

    ہمارے جزو ہستی کا پتہ کل سے نکل آیا

    بتایا حال یوں کوزے میں دریا کے سمانے کا

    کہ ساقی خود مجسم ساغر مل سے نکل آیا

    کسی کی بے نیازی پر میں اپنی جان دیتا ہوں

    گلے کے واسطہ تیغ تغافل سے نکل آیا

    اندھیرا قبر کا دیکھا تو پھر یاد آ گئے گیسو

    میں سمجھا تھا کہ اب میں تیرے کاکل سے نکل آیا

    میں سمجھوں گا کہ میرے داغ عصیاں دھل گئے سارے

    اگر آنسو تری چشم تغافل سے نکل آیا

    اذان پنج وقتہ پر کبھی منہ سے نہیں بولا

    مگر رندوں نے جب فریاد کی غل سے نکل آیا

    قناعت دوسرے کے آسرے کا نام ہے مضطرؔ

    خدا ہے جو کوئی حد توکل سے نکل آیا

    مأخذ :
    • کتاب : خرمن حصہ - ۲ (Pg. 164)
    • Author : مضطر خیرآبادی
    • مطبع : جاوید اختر (2015)
    • کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 72)
    • مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے