نہ برقع رخ پہ ہوگا اور نہ پردہ درمیاں ہوگا
نہ برقع رخ پہ ہوگا اور نہ پردہ درمیاں ہوگا
قیامت میں یہ اے پردہ نشیں پردہ کہاں ہوگا
نہ جب اہل مکاں ہوں گے نہ جب کوئی مکاں ہوگا
جہاں کا رنگ کیا اس وقت اے اہل جہاں ہوگا
جدا پایا ہمیشہ ہم نے مسلک عشق والوں کا
ہمارا مقبرہ دیر و حرم کے درمیاں ہوگا
میں وہ گل ہوں نہ فرصت دی خزاں نے جس کو ہنسنے کی
چراغ قبر بھی جل کر نہ اپنا گل فشاں ہوگا
کرو گے جب کسی سے عشق تب دیکھو گے رنگ اس کا
یہ سو پردے میں جھلکے گا یہ چھپ کر بھی عیاں ہوگا
عدو کو آزماؤ گے کہ ہم کو آزماؤ گے
ہمارا امتحاں ہوگا کہ اس کا امتحاں ہوگا
ترقی عشق کی جولاں کرے گی اور وحشت کو
جہاں تک آگ یہ بھڑکے گی اتنا ہی دھواں ہوگا
بگولوں کی طرح صحرا میں مارے مارے پھرتے ہیں
ہمارا دکھ وہی سمجھے گا جو بے خانماں ہوگا
نہیں آسان پانا حشر میں یاران رفتہ کا
وہاں تو ہر قدم پر کارواں در کارواں ہوگا
الٰہی پار کب اتریں گے دریائے شہادت کے
خدایا کب سفینہ آب خنجر میں رواں ہوگا
کھلے گا حشر میں ناز و نیاز عشق کا عقدہ
میں اس کا میہماں ہوں گا وہ میرا میزباں ہوگا
عدم کیا حشر میں بھی روئیں گے یاران رفتہ کو
کہاں ہم ہوں گے جانیں قافلہ اپنا کہاں ہوگا
یہی پہچان بحر غم میں ہوگی میری کشتی کی
نہ اس پر ناخدا ہوگا نہ اس میں بادباں ہوگا
اسی سے پوچھ لینا تم پشیمانیٔ الفت کو
پس دیوار رکھے سر پہ ہاتھ اک نوجواں ہوگا
ہمارے خانۂ دل میں ہے جیسا کچھ کہ سناٹا
زیادہ اس سے کیا ویران مجنوں کا مکاں ہوگا
وہ گھر کی راہ لے گا اور عدم کی راہ ہم لیں گے
ہمارا فیصلہ شب درمیاں وقت اذاں ہوگا
گلی میں اپنے بیماروں کو وہ رہنے نہیں دیتا
کہاں موت آئے گی یا رب مزار اپنا کہاں ہوگا
عیاں جو ہو چکا عالم میں عالم پر نہ مر اس کے
ابھی تو خاک کے پردے میں کیا کیا کچھ نہاں ہوگا
جسے دیکھا تھا زیر نقش پا کوچے میں کل تو نے
وہ تیرا نیم جاں ہوگا وہ تیرا ناتواں ہوگا
جہاں ہیں محو نغمہ بلبلیں گل جس میں خنداں ہیں
اسی گلشن میں کل زاغ و زغن کا آشیاں ہوگا
سہارے پر جو صرصر کے اٹھا تھا گر پڑا اٹھ کے
وہ اس کوچہ میں میرا ہی غبار ناتواں ہوگا
اسی جانب چلے جائیں گے وحشی ترے بے کھٹکے
جدھر خار بیابان جنوں دامن کشاں ہوگا
مقام امتحاں خالق نے عالم کو بنایا ہے
یہاں جب تک رہو گے امتحاں ہی امتحاں ہوگا
تلاش یار سے فارغ نہ ہوں گے بعد مردن بھی
جدھر جائے گی اپنی روح لاشہ بھی رواں ہوگا
ترے کوچے میں اکثر اک بگولہ خاک اڑاتا ہے
مٹا ڈالا جسے تو نے وہی بے خانماں ہوگا
یہی کیا عرشؔ تھا جو پڑھ گیا انداز مومنؔ میں
تھیں ترکیبیں الگ سب سے وہی جادو بیاں ہوگا
- کتاب : کلیات عرش (Pg. 200)
- Author : علامہ سید ضمیرالدین احمد
- مطبع : فائن آرٹ پریس (1932)
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.