نہ دنیا کی خبر ہے کچھ نہ دیں کا ہوش ہے سر میں
بھلایا دو جہاں کو تو نے ساقی ایک ساغر میں
مثال آئینہ تو بھی اگر بیٹھا رہے گھر میں
جمال شاہد مقصود پیدا ہو ترے بر میں
وہی پیدا کرے گا دل میں بھی عشق حقیقت کو
بنایا جس نے گوہر کو صدف میں لعل پتھر میں
جواں مردی تری اور زور و طاقت جب میں مانوں گا
اگر سنبھلا رہے تو پیر گردوں میری ٹھوکر میں
فلک اسباب دنیا مجھ سے کیا ہاتھ آئے گا ترے
نہیں ہے بھیک کا بھی ٹھیکرا درویش کے گھر میں
جو اعلیٰ ہیں مقام ان کا ہو اسفل غیر ممکن ہے
بھڑکتی طور کی آتش نہ دیکھی ہم نے مجمر میں
وہی خواہش ہے دنیا کی وہی غفلت ہے عقبیٰ سے
نہیں کرتے ہیں اب تک فرق بد میں اور بہتر میں
پڑے ہیں کنج مرقد میں کفن پہنے ہوئے غافل
جو پھولے بھی سماتے تھے نہ کم خواب مشجر میں
پھڑک کر دم نکل جائے گا یاد گل میں بلبل کا
لپٹوا دے قفس صیاد پھلکاری کی چادر میں
بڑا ہنگامہ ہے شاید ہمارے استخوانوں پر
ہوا جھگڑا ہما میں اور سگان کوئے دلبر میں
قد دل دار سے دعویٰ جو اس کو قد کشی کا ہے
کوئی نکلی ہے شاخ تازہ کیا نخل صنوبر میں
کیا ہے خود پسند آئینہ نے سارے حسینوں کو
بڑا یہ عیب نکلا صنعت دست سکندر میں
سپہر حسن ہے تو اور اختر خال عارض ہیں
مہ کامل کا عالم ہے ترے روئے منور میں
میں وہ آتش نفس بلبل ہوں سن لینا تو او گلچیں
لگا دی آگ نالوں نے مرے صیاد کے گھر میں
لہو تو پی چکا اے عشق اب تو ہاتھ اٹھا مجھ سے
نہیں جز استخوان و پوست باقی جسم لاغر میں
تڑپتے دیکھے بسمل روز اس قاتل کے کوچے میں
ہمیشہ عید قرباں رہتی ہے قصاب کے گھر میں
وہ راحت پائی ہے کنج لحد میں خود میں حیراں ہوں
کنار گور میں سوتا ہوں یا آغوش مادر میں
ہوا ہوں داغ کھا کر عشق میں لالہ عذاروں کے
مرا مردا لپٹتا جائے گا پھولوں کی چادر میں
خدا چاہے تو رندؔ اب کی در مقصود ہاتھ آئے
توکل کر کے اک غوطہ لگا تو پھر سمندر میں
مأخذ :
- کتاب : دیوان رند (Pg. 97)
- Author : سید محمد خان رندؔ
-
مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ
(1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.