نہ کر سختی ستم گر سخت جاں پر
پڑا رہنے دے سنگ آستاں پر
لئے پھرتی ہے اشکوں کی روانی
رواں ہوں کشتی آب رواں پر
ہماری آہ سوزاں کے شرارے
ستارے بن گئے ہیں آسماں پر
یہ مجھ کو سخت جانی پر ہے غرا
پٹکتے سر ہیں سنگ آستاں پر
چلا جاتا نہیں افتادگی سے
پڑا ہوں نقش پائے رہرواں پر
تصور میں ہوا جوش تحیر
وہیں بیٹھا رہا بیٹھا جہاں پر
بتا دے مجھ کو اے بیتابیٔ دل
زمیں پر ہے کہ بجلی آسماں پر
سیاہی تیرہ بختی کی ہماری
شب غم بن گئی ہے آسماں پر
یہ دریائے محبت موجزن ہے
پڑا ہوں بستر اشک رواں پر
میں اک تصویر دیوار مکاں ہوں
ہے سب کچھ اور نہیں کچھ بھی زباں پر
سبک روحی سے اتنا ہوں سبک میں
رواں ہوں ذرۂ ریگ رواں پر
موذن تجھ کو آخر یہ ہوا کیا
ارے ظالم اذاں کیسی اذاں پر
غرض اس کی گلی میں کٹ گئی شب
یہاں پر گاہے تھا گاہے وہاں پر
سلامت ہے جو اپنی لاغری یہ
نہ ہوں گا پار مور ناتواں پر
حباب آسا نہیں حاجت خضر کی
چلیں کیوں نقش پائے دہر واں پر
نشان بے نشانی کہہ رہا ہے
مٹے جاتے ہو کیوں نام و نشاں پر
بتو سن لو میں مومنؔ خاں نہیں ہوں
کہ ایماں لاؤں اس جھوٹے بیاں پر
چلو دو گھونٹ پی لو تم بھی اے عرشؔ
ہے اک میلا در پیر مغاں پر
- کتاب : کلیات عرش (Pg. 76)
- Author : علامہ سید ضمیرالدین احمد
- مطبع : فائن آرٹ پریس (1932)
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.