نہیں آشنا مرے حال سے کوئی آنکھ بزم مجاز میں
نہیں آشنا مرے حال سے کوئی آنکھ بزم مجاز میں
ہوں وہ آئینہ جو ہے ناتمام ابھی ذہن آئینہ ساز میں
یہی راز تھا کہ حقیقتیں رہیں راز بزم مجاز میں
وہی غزنوی کی نظر میں تھی جو گرہ تھی زلف ایاز میں
مرا داغ سجدہ مٹائے کیوں فلک اس کو چاند بنائے کیوں
کہ یہ داغ حاصل عاشقی ہے مری جبین نیاز میں
نہ یہ شمع بزم فروز ہو نہ یہ زندگی نہ یہ سوز ہو
جو نگاہ گرم اثر تری نہ بھرے نوا مرے ساز میں
یہ رکوع کیا یہ قیام کیا یہ سجود کیا یہ سلام کیا
فقط اک فریب نیاز ہے جو نہ محویت ہو نماز میں
ترا نغمہ موج شگفتگی مرا نالہ شعلۂ زندگی
ہے یہی تو فرق مغنیہ مرے سوز میں ترے ساز میں
ہوا خاک ذوق نیاز سے تو سمجھ نہ یہ کہ حقیر ہوں
مجھے جذب ہونے کا شوق ہے تری بزم ذرہ نواز میں
نہیں آنکھ جلوہ کش سحر یہ ہے ظلمتوں کا اثر مگر
کئی آفتاب غروب ہیں مرے غم کی شام دراز میں
وہ عروج ماہ وہ چاندنی وہ خموش رات وہ بے خودی
وہ تصورات کی سر خوشی ترے ساتھ راز و نیاز میں
مجھے خوئے توبہ نہیں تو کیا مرے جرم بخشے نہ جائیں گے
ابھی اور چاہئیں وسعتیں کرم بہانہ نواز میں
عربی نہیں عجمی سہی مگر آرزو ہے کہ وارثیؔ
کبھی اپنا نغمۂ مشرقی میں سنوں نوائے حجاز میں
- کتاب : کلیم عجم (Pg. 234)
- Author : سیماب اکبرآبادی
- مطبع : رفاہ عام پریس، آگرہ (یوپی) (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.