کیا قیامت ہے کہ ہم جان سے جاتے بھی نہیں
کیا قیامت ہے کہ ہم جان سے جاتے بھی نہیں
ان کے آنے کا کوئی لطف اٹھاتے بھی نہیں
ہنس کے کہنا رخ زیبا تو دکھاتے بھی نہیں
بجلیاں خرمن ہستی پہ گراتے بھی نہیں
ہائے کیا بے خودی شوق نے آفت ڈھائی
وہ چلے آتے ہیں ہم ہوش میں آتے بھی نہیں
ہے وہ ہنگامہ فزا ضعف کہ اب دست جنوں
دھجیاں جیب و گریباں کی اڑاتے بھی نہیں
نالے کیا ضعف سے پہنچیں گے در جاناں تک
پایہ عرش بریں آج ہلاتے بھی نہیں
فکر بھی چارہ گر دل کو ہے صحت کی میرے
مجھ سے جو روٹھ گیا اس کو مناتے بھی نہیں
چند قطرے تھے مگر اشک ندامت کے تھے
دھبے اس دامن عصیاں کے مٹاتے بھی نہیں
نجم کس حال کو پہونچا الم بیتابی
خاک تم دشت محبت کی اڑاتے بھی نہیں
- کتاب : ماہ عید (Pg. 65)
- Author : سید احمد انور
- مطبع : مطبع اتحاد، بہار (1924)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.