حسن اسیر رسم ہے عشق ہے اضطراب میں
حسن اسیر رسم ہے عشق ہے اضطراب میں
ممکن کہاں سکوں ملے سامنا ہو حجاب میں
جس کو سمجھ رہا تھا میں سنگ ستم ہے جان پر
اس نے گلاب رکھ دیا عشق کی ہر کتاب میں
شدت پیاس کا اثر دیکھیے آپ بھی ذرا
دریا سمٹ کے آ گیا تشنگی سراب میں
عرض وصال جو کیا ان سے جواب یہ ملا
خوف ستم زمانہ ہے عقل ہے پیچ و تاب میں
آپ یقین جانئے کفر سے بڑھ کے ہے نفاق
آب تہور ڈال دے جیسے کوئی شراب میں
نا ہے متاع زندگی اور نا اس کی کچھ طلب
ہم ہیں غلام شرف حق کھوئے ہیں بو تراب میں
مخفی تو ہو گئے ہیں وہ عالم ہست و بود سے
کاش نصرؔ میں دیکھ لوں مولائے کل کو خواب میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.