ساون کا سماں باندھے زلفوں کی گھٹائیں ہیں
ساون کا سماں باندھے زلفوں کی گھٹائیں ہیں
گھیرے ہوئے ایماں کو یہ کالی بلائیں ہیں
مائل بہ کرم ایسی معصوم ادائیں ہیں
جینے کی بھی خواہش ہے، مرنے کی دعائیں ہیں
مصروفِ ستم مجھ پر یوں وہ ستم آرا ہے
میں محوِ تحیر ہوں وہ محوِ تماشہ ہے
الجھے ہوئے سو دل ہیں سلجھے ہوئے بالوں میں
اک تل ہے غضب ڈھائے اُن پھول سے گالوں میں
محصور مہ و خور ہیں خود ساختہ ہالوں میں
مخمور جوانی ہے خود اپنے کمالوں میں
اک عالمِ مستی میں وہ حسنِ سراپا ہے
میں محوِ تحیر ہوں وہ محوِ تماشہ ہے
مائل بہ ستم پھر یوں وہ جانِ بہاراں ہے
ہر ایک ادا اس کی صد رہزنِ ایماں ہے
ہر بات میں آج اس کی اک ولولہ پنہاں ہے
ہر لفظ سے اظہارِ جذبات نمایاں ہے
ہر ایک اشارے میں اقرار کا دھوکہ ہے
میں محوِ تحیر ہوں وہ محوِ تماشہ ہے
گوری سی ہتھیلی پر مہندی ہے غضب ڈھائے
ہونٹوں کے تبسم پر لالی ہے غضب ڈھائے
گالوں کی سپیدی پر سرخی ہے غضب ڈھائے
ہر ایک ادا اس کی کیسی ہے غضب ڈھائے
خطرے کے نشانے پر شاید مری توبہ ہے
میں محوِ تحیر ہوں وہ محوِ تماشہ ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.