تصور کا اثر بڑھ کر گلے کا ہار ہو جائے
تصور کا اثر بڑھ کر گلے کا ہار ہو جائے
ادھر پردہ سرک جائے ادھر دیدار ہو جائے
اے واعظ توہی کر انصاف وہ سجدہ کا کیا کہنا
کہ جو سجدہ سراپا نقش پائے یار ہو جائے
مجھے محفل سے اپنی اس لیے شاید نکالا ہے
کہیں ایسا نہ ہو یہ واقف اسرار ہو جائے
نگاہ یار میری زندگی کا خاتمہ کر دے
مکاں سے تیر نکلے اور جگر کے پار ہو جائے
محبت کے سمندر میں کوئی ڈوبے کوئی ابھرے
کوئی اس پار رہ جائے کوئی اوس پار ہو جائے
دبے پاؤں چلے آتے ہیں تربت پرقطرہ مری نازاںؔ
انہیں ڈر ہے کہیں سویا ہوا ہشیار ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.