نظر میں بھی نہیں اب گھومتا پیمانہ برسوں سے
نظر میں بھی نہیں اب گھومتا پیمانہ برسوں سے
قسم کھانے کو بھی دیکھا نہیں مے خانہ برسوں سے
نہ پینے کو ملی اک گھونٹ بے باکانہ برسوں سے
نہیں اب کار فرما جرأت رندانہ برسوں سے
سر صحرا جدھر دیکھو اداسی ہی اداسی ہے
ادھر آیا نہیں شاید کوئی دیوانہ برسوں سے
کبھی خلوت کبھی جلوت کبھی ہنسنا کبھی رونا
مرتب کر رہے ہیں ہم بھی اک افسانہ برسوں سے
یہ تکلیف قدم بوسی یہ انداز پذیرائی
ہمارا منتظر تھا غالباً ویرانہ برسوں سے
میسر آئی کیا ہم کو گدائی آپ کے در کی
گزرتی ہے ہماری زندگی شاہانہ برسوں سے
وہ اپنی ذات کے صحرا میں شاید تیرا جویا ہے
نظر آیا نہیں احباب کو دیوانہ برسوں سے
نصیرؔ اب اپنی آنکھیں اٹھ نہیں سکتیں کسی جانب
مرے پیش نظر ہے اک تجلی خانہ برسوں سے
- کتاب : کلیات نصیرؔ گیلانی (Pg. 702)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.