ایسا لگتا ہے کہ رکھا ہے دیا پانی پر
ایسا لگتا ہے کہ رکھا ہے دیا پانی پر
ورنہ کیوں ایک دھماکا سا ہوا پانی پر
ایک اک موج بصد شوق قدم چومتی ہے
جب ہو مصروف سفر رخش نوا پانی پر
مجھ کو تنہا جو سفر کرتے ہوئے دیکھا تو
اک تصور بھی مرے ساتھ چلا پانی پر
تم نے سوچا ہے کبھی کیا تمہیں معلوم ہے کچھ
کھیلتی رہتی ہے کیوں باد صبا پانی پر
ایک تالاب کنارے میں کھڑا دیکھتا ہوں
کائی ہے یا ہے کوئی سبز ردا پانی پر
تیشہ موج اسے مسمار بھی کر سکتا ہے
سن مرے یار کوئی گھر نہ بنا پانی پر
مچھلیاں آ گئیں اے نورؔ سلامی دینے
اس نے پھونکی تھی ابھی کوئی دعا پانی پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.