پڑھ کے خط یار کا کل میں نے بنایا تعویذ
پڑھ کے خط یار کا کل میں نے بنایا تعویذ
اس سے بہتر کوئی الحب کا نہ پایا تعویذ
گرم جوشی سے کسی دن نہ ملا مجھ سے وہ
آگ میں جس کے لئے میں نے جلایا تعویذ
شاید اس بت کا دل سنگ کہیں پانی ہو
اس لئے بحر میں لکھ لکھ کے بہایا تعویذ
اک عمل بھی نہ چلا اس پہ مرا کیا کہیے
گرچہ سو طرح محبت کا لکھایا تعویذ
تلخی کوہ کنی سے جو مواشیریں نے
اس کی تربت پہ بھی مر مر کا لگایا تعویذ
چشم بددور نظر میری تو ہے اس پہ لگی
تار مقیش سے کیوں تو نے خدایا تعویذ
ہاتھ سے دل تو لئے کتنے زبردستوں کے
بند و بست اپنے کا تو نے جو دکھایا تعویذ
بد گماں مجھ سے زیادہ وہ ہوا کچھ نہ بنا
پاس میرے کہیں اس کو نظر آیا تعویذ
لے گیا توڑ مرے بازو سے جھٹ پٹ اس کو
پھر دکھایا نہ مجھے ایسا چرایا تعویذ
نہ چلا میرا کہا اس سے میں کہتا ہی رہا
جان میری کوئی لیتا ہے پرایا تعویذ
یار میرا نہ کبھی مجھ سے خفا ہووے ترابؔ
مجھ کو بتلا دے کوئی ایسی دعا یا تعویذ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.