اک بتِ وعدہ شکن کو باوفا سمجھا تھا میں
اک بتِ وعدہ شکن کو باوفا سمجھا تھا میں
جانی بوجھی بات کو بھی ہائے کیا سمجھا تھا میں
نا خدائے کشتیٔ امیدوارماں ہی نہیں
تجھ کو تواے دوست اس سے بھی سوا سمجھا تھا میں
انتہائے غم کا اطلاق اب اسی آنسو پہ ہے
جس کو رودادِ الم کی انتہا سمجھا تھا میں
اللہ اللہ ابتدائے عشق کی معصومیاں
تجھ کو دنیائے محبت کا خدا سمجھا تھا میں
اب تری اک ایک جنبش کیوں ہے پیغامِ اجل
اے نگاہِ دوست تجھ کو جانے کیا سمجھا تھا میں
تیرے دامن نے جسے موتی بنا ڈالا ہے آج
کل اسی آنسو کو تارا صبح کا سمجھا تھا میں
آج بھی ہوں میں اسی منزل پہ جس منزل پہ کل
تجھ کو اپنا خود کو تیرا آئینہ سمجھا تھا میں
کیا کروں یہ تو ہے میری ہی نگاہوں کا قصور
ہائے کیوں پہلے تجھے درد آشنا سمجھا تھا میں
ہر طرف گونجی ہوئی ہے آج وہ آہِ رسا
جس کو اک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا سمجھا تھا میں
اس ری قسمت ہے وہی دامن کشیدہ اے پیامؔ
جس کو اپنی زندگی کا آسرا سمجھا تھا میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.