مرتا ہوں تیرے ناز کا آغاز ہے ہنوز
مرتا ہوں تیرے ناز کا آغاز ہے ہنوز
خونیں کفن یہ ناوک انداز ہے ہنوز
پڑھ کے علوم رسم ہوا جانشیں فقیہ
مشتاق اب تلک تبک و تاز ہے ہنوز
روز ازل الست کا مذکور ہو چکا
صاحب دلاں کی کان پر آواز ہے ہنوز
خاکی قفس اگرچہ اسی کا ہے سد راہ
مرغ آشیان قدس بہ پرواز ہے ہنوز
بندے بہت ہیں دنیا کے زنداں میں ولی
باب النجات کس کے لیے باز ہے ہنوز
محفل میں کنت کنز کی ساقی تھا عشق دوست
عاشق کا روح مست مئے راز ہے ہنوز
بیدلؔ نے تیرے نین کے تصور میں جان دی
تیری ہجر کا قصۂ پرداز ہے ہنوز
- کتاب : بیدل جو اردو کلام (Pg. 131)
- Author : فقیر قادر بخش بیدل
- مطبع : سچائی اشاعت گھر، پاکستان (1997)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.