قیامت ہے کس کی اٹھائی ہوئی
قیامت ہے کس کی اٹھائی ہوئی
یہ آفت ہے سب ان کی لائی ہوئی
اکیلی لحد میں ہے آئی ہوئی
قیامت بھی ہے کھیلی کھائی ہوئی
اڑائیں گے وہ خاک میرے لئے
برے وقت ان سے صفائی ہوئی
جو مہندی لگانا نہیں جانتے
یہ ہے آگ ان کی لگائی ہوئی
تری بزم میں ہم برے کیوں بنے
وہ کیا ایسی ہم سے برائی ہوئی
یہ کاہے کو آتی مری قبر میں
قیامت ہے ان کی ستائی ہوئی
نہ کام آئے نالے نہ دل کی تڑپ
کسی کی نہ ان تک رسائی ہوئی
ہوا کیا پڑا آئینہ بیچ میں
یہ تھا کون کس سے لڑائی ہوئی
ہنسی میں اڑاتے وہ کیا میری بات
کہو دب گئی لب تک آئی ہوئی
نہ کہنا عدو سے کوئی دل کی بات
جہاں منہ سے نکلی پرائی ہوئی
عدو کو دم ذبح وہ لائے ساتھ
اسے آ گئی میری آئی ہوئی
دکھاؤ نگہ کی جو تم شوخیاں
پھرے برق بھی تلملائی ہوئی
نہیں آتش طور دل کی لگی
بجھے گی نہ ان کی لگائی ہوئی
خدا اپنے بندوں کی سنتا اگر
تو سنتے بتوں کی خدائی ہوئی
مری قبر پر آکے میکش پئیں
گھٹا حسرتوں کی ہے چھائی ہوئی
یہی تو مری جان کا ہے عدو
سب آفت ہے اس دل کی لائی ہوئی
اڑاؤ ریاضؔ اٹھ کے بوتل کے کاگ
گھٹا کب سے ہے آج چھائی ہوئی
- کتاب : ریاض رضواں (Pg. 404)
- Author : ریاضؔ خیرآبادی
- مطبع : کتاب منزل،لاہور (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.