تجھے پائے کہاں کوئی تجھے ڈھونڈھے کہاں کوئی
تجھے پائے کہاں کوئی تجھے ڈھونڈھے کہاں کوئی
نہ تجھ سا بے نشاں کوئی نہ تجھ سا لامکاں کوئی
سنانے کو سنا تو دے گا میری داستاں کوئی
کہاں سے پائے گا مرا دل اور میری زباں کوئی
یہ مانا سن نہیں سکتا کوئی بیدرد بھی لیکن
کہاں سے لائے دل کا حال کہنے کو زباں کوئی
نگاہِ مست سے ہے میکدہ آئینہ محشر
پڑا ہے بے پیے ہر سو یہاں کوئی وہاں کوئی
میں دیکھوں تو اثر پھر کس طرح ہوتا نہیں دل پر
سنے میری زباں سے بھی تو میری داستاں کوئی
حرم اور دیر کی تفریق سنگ راہ عرفاں ہے
غرض ہم کو تو سجدے سے ہے وہ ہو آستاں کوئی
فلک کو دشمنی ہے بجلیوں کو لاگ رہتی ہے
گلستاں میں بنائے روز کب تک آشیاں کوئی
جما ہے رنگ صحبت لطف کی ہے بخت یاور ہے
کہ مجھ سے سن رہا ہے آج میری داستاں کوئی
نہیں دھبے لہو کے دامن و شمشیر قاتل پر
مرے ارمان و حسرت ہیں یہاں کوئی وہاں کوئی
گوارا ہے ہمیں مرمر کے جینا ہی گوارا ہے
ہمارے سامنے لے ناز سے انگڑائیاں کوئی
جہاں سے اٹھ گیا قدسیؔ تو اٹھ جانے دو غم کیا ہے
نشانِ قبر ہے باقی اگر ہو امتحاں کوئی
- کتاب : آئینۂ دل (Pg. 63)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.