جل کے بھی اک یادگارِ جلوۂ جانانہ تھا
جل کے بھی اک یادگارِ جلوۂ جانانہ تھا
کار نامہ عشق کا تھا جو پرِ پروانہ تھا
بزم فطرت میں نہ تھا کچھ بھی سوائے حسن و عشق
کوئی کیا جانے یگانہ تھا کہ میں بیگانہ تھا
کوئی میری داستانِ غم سمجھتا کِس طرح
حرف حرف اور لفظ لفظ افسانہ در افسانہ تھا
رات کیا ہنگامۂ بزمِ طرب تھا کچھ نہ پوچھ
صبح ہوتے ہوتے اک بھولا ہوا افسانہ تھا
جلوۂ محبوب کی اللہ ری نیرنگیاں
بس وہی ذی ہوش تھا جو ہوش سے بیگانہ تھا
ایک ہی پتھر کے ٹکڑے اور رتبے مختلف
ایک سنگِ قبر اک سنگِ درِ جانا نہ تھا
میں حریم حق میں پہنچا دیر سے ہوتا ہوا
دیکھنا منزل بہ منزل جلوۂ جانا نہ تھا
ان کا ناکام محبت دہر میں جب تک رہا
ساری دنیا سننے والی ایک ہی افسانہ تھا
اللہ اللہ میرے ساقی کی تھی کیا دریا دلی
اس کا میخانہ تھا جس کے ہاتھ میں پیمانہ تھا
اک پتنگا سوزش الفت سے جل مرنے پہ بھی
داستاں کی داستاں پروانے کا پروانہ تھا
طالب و مطلوب تھے مطلوب و طالب شام وصل
کیا بتائیں کون مہماں کون صاحب خانہ تھا
- کتاب : آئینۂ دل (Pg. 3)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.