Font by Mehr Nastaliq Web

جل کے بھی اک یادگارِ جلوۂ جانانہ تھا

قدسی جائسی

جل کے بھی اک یادگارِ جلوۂ جانانہ تھا

قدسی جائسی

MORE BYقدسی جائسی

    جل کے بھی اک یادگارِ جلوۂ جانانہ تھا

    کار نامہ عشق کا تھا جو پرِ پروانہ تھا

    بزم فطرت میں نہ تھا کچھ بھی سوائے حسن و عشق

    کوئی کیا جانے یگانہ تھا کہ میں بیگانہ تھا

    کوئی میری داستانِ غم سمجھتا کِس طرح

    حرف حرف اور لفظ لفظ افسانہ در افسانہ تھا

    رات کیا ہنگامۂ بزمِ طرب تھا کچھ نہ پوچھ

    صبح ہوتے ہوتے اک بھولا ہوا افسانہ تھا

    جلوۂ محبوب کی اللہ ری نیرنگیاں

    بس وہی ذی ہوش تھا جو ہوش سے بیگانہ تھا

    ایک ہی پتھر کے ٹکڑے اور رتبے مختلف

    ایک سنگِ قبر اک سنگِ درِ جانا نہ تھا

    میں حریم حق میں پہنچا دیر سے ہوتا ہوا

    دیکھنا منزل بہ منزل جلوۂ جانا نہ تھا

    ان کا ناکام محبت دہر میں جب تک رہا

    ساری دنیا سننے والی ایک ہی افسانہ تھا

    اللہ اللہ میرے ساقی کی تھی کیا دریا دلی

    اس کا میخانہ تھا جس کے ہاتھ میں پیمانہ تھا

    اک پتنگا سوزش الفت سے جل مرنے پہ بھی

    داستاں کی داستاں پروانے کا پروانہ تھا

    طالب و مطلوب تھے مطلوب و طالب شام وصل

    کیا بتائیں کون مہماں کون صاحب خانہ تھا

    مأخذ :
    • کتاب : آئینۂ دل (Pg. 3)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے