راز سر بستہ محبت کے زباں تک پہنچے
راز سر بستہ محبت کے زباں تک پہنچے
بات بڑھ کر یہ خدا جانے کہاں تک پہنچے
کیا تصرف ہے ترے حسن کا اللہ اللہ
جلوے آنکھوں سے اتر کر دل و جاں تک پہنچے
تری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا
سرحد عقل سے گزرے تو یہاں تک پہنچے
حیرت عشق مری حسن کا آئینہ ہے
دیکھنے والے کہاں سے ہیں کہاں تک پہنچے
کھل گیا آج نگاہیں ہیں نگاہیں اپنی
جلوے ہی جلوے نظر آئے جہاں تک پہنچے
وہی اس گوشۂ داماں کی حقیقت جانے
جو مرے دیدۂ خوں نابہ فشاں تک پہنچے
ابتدا میں جنہیں ہم ننگ وفا سمجھے تھے
ہوتے ہوتے وہ گلے حسن بیاں تک پہنچے
آہ وہ حرف تمنا کہ نہ لب تک آئے
ہائے وہ بات کہ اک اک کی زباں تک پہنچے
کس کا دل ہے کہ سنے قصۂ فرقت میرا
کون ہے جو مرے اندوہ نہاں تک پہنچے
خلش انگیز تھا کیا کیا تری مژگاں کا خیال
ٹوٹ کر دل میں یہ نشتر رگ جاں تک پہنچے
نہ پتہ سنگ نشاں کا نہ خبر رہبر کی
جستجو میں ترے دیوانے یہاں تک پہنچے
نہ غبار رہ منزل ہے نہ آواز جرس
کون مجھ رہرو گم کردۂ نشاں تک پہنچے
صاف توہین ہے یہ درد محبت کی حفیظؔ
حسن کا راز ہو اور میری زباں تک پہنچے
- کتاب : نقوشِ لاہور (Pg. 203)
- Author : محمد طفیل
- مطبع : ادارہ فروغِ اردو، لاہور (Feb.1956)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.