رات گئے یوں دل کو جانے سرد ہوائیں آتی ہیں
رات گئے یوں دل کو جانے سرد ہوائیں آتی ہیں
اک درویش کی قبر پہ جیسے رقاصائیں آتی ہیں
سادہ لوحی کی نبٹے گی اس رنگین زمانے سے
دو آنکھوں کا پیچھا کرنے لاکھ ادائیں آتی ہیں
ڈھونڈھ رہی ہے میرے تن میں شاید میری روح مجھے
اپنے سناٹوں سے کچھ مانوس صدائیں آتی ہیں
میرا اک اک لمحہ کرب لیے پھرتا ہے صدیوں کا
اک دنیا کے رستے میں کتنی دنیائیں آتی ہیں
پہلے سر سے اونچی لہروں سے بھی ہم لڑ لیتے تھے
اب تو ان سوکھے ہونٹوں پر صرف دعائیں آتی ہیں
دشت نوردی کے دوران مظفرؔ سر پر دھوپ رہی
جب سے کشتی میں بیٹھے ہیں روز گھٹائیں آتی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.