لگا کے سرمہ کہ جادو جگا کے بیٹھے ہیں
لگا کے سرمہ کہ جادو جگا کے بیٹھے ہیں
عجیب رنگ دلوں پر جما کے بیٹھے ہیں
سنے گا کون کہانی مری یہاں صاحب
غضب ہے عرش پر اب آپ جا کے بیٹھے ہیں
انہوں نے سیکھا ہے آنکھوں کی اوٹ ہو رہنا
تو ہم بھی آنکھوں کے پردے اٹھا کے بیٹھے ہیں
نہ سمجھے تا کوئی میری وفا نے کھینچا ہے
چراغ قبر کا میری بجھا کے بیٹھے ہیں
انہوں نے مجھ کو کہیں کا بھی اب نہیں رکھا
کہ مجھ سے حشر میں دامن چھڑا کے بیٹھے ہیں
کوئی زمانہ تھا صحرا نوردی کرتے تھے
مزے وصال کے اب چکھ چکھا کے بیٹھے ہیں
کہیں نہ آپ کے دیدار سے تڑپ جائے
اسی سے پہلو میں دل کو دبا کے بیٹھے ہیں
یہ خوب حیلہ ملا ہے انہیں نہ آنے کا
جو آج پاؤں میں مہندی لگا کے بیٹھے ہیں
نہ اب خدا ہی سے مطلب نہ کچھ بتوں سے ہے
کہ خاک اپنے صنم پر رما کے بیٹھے ہیں
نہ پائے کوئی کسی ڈھب سے تا نشاں ان کا
جو نقش پا بھی کہیں تھا مٹا کے بیٹھے ہیں
کیا جو کرنا تھا ہونا جو تھا ہوا سب کچھ
اب انتظار میں ہم تو قضا کے بیٹھے ہیں
صبا تو لائے گی نکہت کہیں سے اس گل کی
عطاؔ اسی سے تو رخ پر ہوا کے بیٹھے ہیں
- کتاب : تذکرۂ ہندو شعرائے بہار (Pg. 108)
- Author : فصیح الدین بلخی
- مطبع : نینشل بک سینٹر، ڈالٹین گنج پلامو (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.