مرے ارماں نکلنے دے ابھی سونے دے جاناں کو
مرے ارماں نکلنے دے ابھی سونے دے جاناں کو
صبا دامن سے روکے رہ نگاہ صبح ہجراں کو
کیا ٹکڑے ہے آخر دست وحشت نے گریباں کو
چھپا رکھا تھا اس پردہ میں ہم نے راز پنہاں کو
کچھ ایسے ہو گئے اول ہی بے خود عشق میں ہم تو
نہیں جانا گریباں کو نہ سمجھا ہم نے داماں کو
نہ اس میں حسن یوسف سا نہ رعنائی زلیخا سی
فسوں کچھ یاد ہے ایسا کہ لے لیتا ہے ایماں کو
یہاں اغماض تم کر لو وہاں دیکھیں گے محشر میں
چھڑانا غیر سے دامن کو اور مجھ سے گریباں کو
یہیں سے حشر الٹے گا یہیں ہوگی قیامت بھی
سمجھ رکھا ہے کیوں چھوڑیں زمین کوئے جاناں کو
مجھے تم دیکھتے ہو اور اس حسرت سے میں تم کو
کہ بلبل رو ئے گل کو اور گل بلبل کے ارماں کو
جہاں میں خانہ زاد زلف کو کیا چھوڑ دیتے ہیں
کہ تم نے چھوڑ رکھا مجھ اسیر زلف پیچاں کو
میرے سینہ پر تم بیٹھو گلا تلوار سے کاٹو
خط تقدیر میں سمجھوں خط شمشیر براں کو
اسیری ہم کو اچھی تھی کہ عالم تھا تماشائی
بہت ہم یاد کرتے ہیں تکلف ہائے زنداں کو
نہ چھوڑو دوش پر گیسو بھرم کھلتا ہے گیسو کا
پڑے گا تم کو کم کرنا مری شہبائے ہجراں کو
محبت اس کو کہتے ہیں کہ تھی صحرا و مجنوں میں
نہ صحرا نے اسے چھوڑا نہ مجنوں نے بیاباں کو
وصال یار جب ہوگا ملا دے گی کبھی قسمت
طبیعت میں طبیعت کو دل و جاں میں دل و جاں کو
مٹایا اس نے کس کس کو برا ہو اس محبت کا
زلیخا کی زلیخائی کو لیلیٰ کی شبستاں کو
زباں سے کیوں کریں اپنی ستائش آپ ہم راقمؔ
سخنداں جانچ لیں گے خود نگاہوں میں سخنداں کو
- کتاب : کلیات راقم (Pg. 156)
- Author : راقمؔ دہلوی
- مطبع : افضل المطابع دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.