گراں ہیں ان کی خاطر پر زباں کی شوخیاں میری
گراں ہیں ان کی خاطر پر زباں کی شوخیاں میری
الٰہی بند ہو جائے شکایت کی زباں میری
رہی تقریر میں الجھی تمنائی بیاں میری
نہ میں سمجھا نگہباں کی نہ سمجھا پاسباں میری
تغافل نے بڑھا دی ان کی آہنگ فغاں میری
نہ تاب ضبط ہے مجھ کو نہ تھمتی ہے زباں میری
نہ وہ کچھ میری سنتے ہیں نہ ان کا پاسباں میری
کشاکش میں تمنا ہے تردد میں ہے جاں میری
بیان درد آگیں ہے کہے گا جا کے کیا قاصد
حدیث آرزو میری پریشاں داستاں میری
بلا ہیں شوخیاں ان میں ہم آغوشی میں کیا ہوں گی
تبسم پر پسی جاتی ہے جان ناتواں میری
صدائے حلقۂ زنجیر در دل میں کھٹکتی ہے
کوئی آتا ہے یا آئی ہے مرگ ناگہاں میری
یہاں تک اب تو شہرت ہے میری بیتابیٔ دل کی
نواسنج چمن کہتے ہیں غم کی داستاں میری
بھرا ہے مدعا دل میں کہوں دل کھول کر ان سے
اگر دم بھر بھی رک جائے یہ چشم خوں فشاں میری
خبر تھی تجھ کو یا رب اس کی طول عہد و پیماں کی
خضر کی سی بڑھا دینی تھی عمر جاوداں میری
گیا فرقت کا رونا ساتھ امید و تمنا کے
وہ بیتابی ہے اگلی سی نہ چشم خوں چکاں میری
گلہ کا اب گلہ کیسا شکایت کی شکایت کیا
ادھر بدلا تمہارا دل ادھر بدلی زباں میری
یہ رنجش دور ہو جاتی کبھی تم بیٹھ کر سنتے
مرے غم کا بیاں مجھ سے زبانی داستاں میری
عبث کرتے ہو تم راقمؔ مری تدبیر ملنے کی
ہم آغوشی مقدر ان سے یاں میری نہ واں میری
- کتاب : کلیات راقم (Pg. 175)
- Author : راقمؔ دہلوی
- مطبع : افضل المطابع دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.