میرے دل میں کیوں خیال کوچۂ دلبر نہ ہو
میرے دل میں کیوں خیال کوچۂ دلبر نہ ہو
بلبل آوارہ کو یاد چمن کیوں کر نہ ہو
دل بتان دہر کی توقیر کا خوگر نہ ہو
خانۂ کعبہ میں با عظمت اگر پتھر نہ ہو
وعدے پر آئیں گے وہ اے دل ٹھہر مضطر نہ ہو
برق تابندہ نہ بن آپے دے تو باہر نہ ہو
ہجر کے آلام سے چھوٹوں یہ قسمت میں نہیں
موت بھی آنے کا گر وعدہ کرے باور نہ ہو
ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے دل فراق یار میں
منتشر اے وصل یہ گنجینۂ ابتر نہ ہو
شر نکالا ہے نرالا کہتا ہے قاتل مرا
زندۂ جاوید ہے وہ جسم جس پر سر نہ ہو
اڑ سکیں برسات میں کس طرح جگنو بے شمار
جوش گریہ میں شرر افشاں جو دل اکثر نہ ہو
عارض تاباں سے ہوتا ہے اسے کسب ضیا
شب چراغ اک دن تمہارے کان کا گوہر نہ ہو
خون کا پیاسا ہے تو اور خون ہی مجھ میں نہیں
چیر کر دل دیکھ لے قاتل اگر باور نہ ہو
میرے دکھلانے کو اٹھے ہو جو قتل غیر پر
تیغ لو وہ ہاتھ میں جس میں ذرا جوہر نہ ہو
مرتے ہی دیدار جاناں ہو میسر با لیقیں
بیچ میں حائل اگر یہ پردۂ محشر نہ ہو
قتل ہی پر میرے گر ہٹ ہے تو آمادہ ہوں میں
روز کا جھگڑا مٹے تن پر بلا سے سر نہ ہو
تیرتا ہے پھول بن کر بحر غم میں دل مرا
کس طرح ڈوبے وہ کشتی جس میں کچھ لنگر نہ ہو
قلب مومن آئینہ ہے ذات مومن کا رضاؔ
دیکھ کر حیراں اسے کیوں عقل اسکندر نہ ہو
- کتاب : Asli Guldasta-e-Qawwali (Pg. 9)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.