Sufinama

آگیا پیغامِ دلبر عاشقِ مضطر کے پاس

رند لکھنوی

آگیا پیغامِ دلبر عاشقِ مضطر کے پاس

رند لکھنوی

MORE BYرند لکھنوی

    آگیا پیغامِ دلبر عاشقِ مضطر کے پاس

    نکہتِ یوسف گئی یعقوب پیغمبر کے پاس

    رندؔ پہنچایا کسی نے بھی نہ اس دلبر کے پاس

    لے گیا یہ التجا میں بیشتر اکثر کے پاس

    عشق ِابرو میں کیا مرنے میں کب میں نے قصور

    بارہا قاتل گلا رکھ رکھ دیا خنجر کے پاس

    منہ ملا کر منہ سے بھی محروم بوسے سے رہے

    ہم پھرے تشنہ پہنچ کر چشمۂ کوثر کے پاس

    حسن کے طالب غنی ہوں دولتِ دیدار سے

    سیم تن محبوب آویں عاشقِ بے زر کے پاس

    دل تو آگے دے چکا ہوں یہ بھی اک دن نذر ہے

    کیا کروں گا رکھ کے جان ِزار بے دلبر کے پاس

    لطف اٹھایا ہے جو عشقِ بت میں دل کی چوٹ کا

    گرتے ہیں دانستہ ٹھوکر کھا کے ہم پتھر کے پاس

    کارواں درکارواں دیکھا متاع ِحسن کو

    جنس ِکنعان پر نہ نکلی ایک سوداگر کے پاس

    اے جنوں تیرے ذریعہ سے رسائی ہوگئی

    غیر ممکن تھا پہنچنا اس پری پیکر کے پاس

    نور اس کا بھی ہو زائل وہ سیہ طالع ہوں میں

    ہو زحل گر آفتاب آوے مرے اختر کے پاس

    دیکھ لعبت باز گردوں سے نہ کھانا تو فریب

    ہیں ہزاروں شعبدے اس پیربازی گر کے پاس

    ثالث ِبالخیر ہے ہو عاشق و معشوق میں

    وحی بے جبریل کب آتی ہے پیغمبر کے پاس

    مثل ِیعقوب اپنے یوسف کو جو رویا ہجر میں

    پڑ گئے رخسار پر ناسور چشم ِتر کے پاس

    اتصال ِقلب ہے گو ہے بظاہر فاصلہ

    دور دل سے تو نہیں وہ گھر نہیں گو گھر کے پاس

    جب تلک جیتا ہوں مثل سایہ تیرے ساتھ ہوں

    صورتِ ہمزاد اے قاتل رہوں گا مر کے پاس

    کیا زوالِ حسن نے عالم کیا کیوں مہرباں

    تم بلاتے ہو کوئی آتا نہیں ہے در کےپاس

    وہ لگے اب دور کھنچنے کیا خدا کی شان ہے

    آ نہ پاتے تھے جو آکے منتیں کر کر کے پاس

    درد سر الفت کا بعد از مرگ بھی ہوگا ضرور

    گور میں رکھ دیجیو صندل رگڑ کر سر کے پاس

    ہچکیاں لے لے کے دو دن دم اکھڑ جائے مرا

    ساقیا دیکھوں جو شیشہ یار بن ساغر کے پاس

    شومیِ طالع سے میرے خشک ہوجاتاتھا شیر

    عہدِ طفلی میں اگر جاتا تھا میں مادر کے پاس

    شق ہوا جاتا ہے سینہ دھیان جب آتا ہے رندؔ

    آج اکیلے بیٹھے ہیں کل لیٹے تھے دلبر کے پاس

    مأخذ :
    • کتاب : دیوان رند (Pg. 67)
    • Author : سید محمد خان رندؔ
    • مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ (1931)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے