چہکتے ہیں مرغِ چمن کیسے کیسے
کھلے ہیں گل و یاسمن کیسے کیسے
تجھے دیکھ کر چوکڑی اپنی بھولے
چکارے بنے ہیں ہرن کیسے کیسے
عدم جا کے ہستی کا یاد آئے گا کیا
اٹھائے ہیں رنج ومحن کیسے کیسے
ہمیں بھی کبھی عشق کے ولولے تھے
دکھاتے تھے دیوانے پن کیسے کیسے
نہ کی اف بھی سودے میں اللہ رے ضبط
جئے میرے داغِ بدن کیسے کیسے
نہ رنگت ہے تیری سی بو ہے نہ تیری
ہزاروں ہیں یاں گلبدن کیسے کیسے
کھلے بندھ کے اُن گورے گورے ڈڑوں پر
یہ بھی بد اور نورتن کیسے کیسے
جلائیں نہ کیوں غول صحرا میں شمعیں
موئے یاں غریب الوطن کیسے کیسے
دکھاتے ہیں دیوانے جب زورِ وحشت
توڑاتے ہیں طوق ورسن کیسے کیسے
نہ ہم سنگ ٹھہرے جو یاقوت لب کے
ہوئے زرد لعلِ یمن کیسے کیسے
جہاں گل تھے اک خار بھی واں نہیں ہے
اجاڑے خزاں نے چمن کیسے کیسے
لڑیں سب سے وحشی نگاہوں کی آنکھیں
جٹے ہیں یہ جنگلی ہرن کیسے کیسے
ملے تھے ہمیں رندؔ کل اتفاقاً
رہے ذکر ِشعر و سخن کیسے کیسے
مأخذ :
- کتاب : دیوان رند (Pg. 277)
- Author : سید محمد خان رندؔ
-
مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ
(1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.