Sufinama

لہو بہتا ہے چشموں سے نہ اشک آنکھوں میں آتا ہے

رند لکھنوی

لہو بہتا ہے چشموں سے نہ اشک آنکھوں میں آتا ہے

رند لکھنوی

MORE BYرند لکھنوی

    لہو بہتا ہے چشموں سے نہ اشک آنکھوں میں آتا ہے

    ہوا ثابت مرا زخمِ جگر پانی چراتا ہے

    عبث ایواں میں منعم شمع ِکافوری جلاتا ہے

    تجھے کچھ گورِ تیرہ کا گڑھا بھی یاد آتا ہے

    کہے اس سے کوئی خوابِ عدم سے کیوں جگاتا ہے

    دم ِتلقیں جو غافل شانہ موتی کاہلاتا ہے

    سخی ہے تو طلب کرتا ہے جو تجھ سے وہ پاتا ہے

    درِدولت سے سائل کون سا محروم جاتا ہے

    سبک کرتی ہے مردے کو گرانباری گناہوں کی

    دبا جاتا ہے جو میرے جنازے کو اٹھاتا ہے

    تصور میں جو سو جاؤں تو آکر خوابِ غفلت میں

    خیالِ زلف ِشبگوں اژدہا بن کر ڈراتا ہے

    نہ کہیے آستانہ سجدہ گاہِ سر کشاں کہیے

    ترے درپر ہراک مغرور گردن کو جھکاتا ہے

    خدا جانے جوانی میں کرے گا گرمیاں کیسی

    ابھی وہ رشکِ مہ خورشید کا پہلو دباتا ہے

    ہم اور وہ آپ کر لیتے ہیں باہم کام ساقی کا

    ہم اس کو مے پلاتے ہیں وہ ہم کو مے پلاتا ہے

    کدھر لے جائے گا کس دشت کے کانٹوں کو روندے گا

    الٰہی خیر کرنا پھر مرا تلوا کھجاتا ہے

    گئی تاب و تواں اب زور شور ِناتوانی ہے

    زباں تک آہ آتی ہے نہ نالہ لب تک آتا ہے

    اکیلا کیا نباہوں میں محبت اپنی جانب سے

    مثل ہے کوئی بھی اک ہاتھ سے تالی بجاتا ہے

    عداوت سے نہیں کم دوستی ابنائے عالم کی

    جو میرے سر کو سہلاتا ہے بھیجا کھائے جاتا ہے

    ہوئے جاتے ہیں لب ہائے جراحت بند بے ٹانکے

    تو قاتل تیغ کو کس آبِ شیریں سے بجھاتا ہے

    عدم آباد سے تانتا لگا ہے ملکِ ہستی تک

    ادھر سے کوئی آتا ہے ادھر سے کوئی جاتا ہے

    نہ ہو آغاز پر نازاں مآل ِکارکو دیکھو

    یہ پتلا خاک کا کیوں آسماں سر پر اٹھاتا ہے

    نظر کرتاہوں گاہے بام پر گہہ در کو تکتا ہوں

    وہ رشکِ مہ زمین و آسماں مجھ کو جھکاتا ہے

    اٹھالوں گا اسے اک روز سر پر طیش میں آکر

    سمجھ کر ناتواں مجھ کو فلک ہردم دباتا ہے

    ترا عاشق ہوں چشم ِقابل ِنظارہ رکھتا ہوں

    میں دیکھوں گا تجھے تو لن ترانی کیا سناتا ہے

    حباب ِبحر بن جاتا ہے ہر اک عطر کی شیشی

    وہ میرا گل بدن دریا میں جاکر جب نہاتا ہے

    یگانے زندگی تک ہیں عزیز واقربا اے رندؔ

    لحد میں سوئے جب جاکر نہ رشتا ہے نہ ناتا ہے

    مأخذ :
    • کتاب : دیوان رند (Pg. 182)
    • Author : سید محمد خان رندؔ
    • مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ (1931)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے