تمہارے ہاتھ سے تنگ آئے ہیں خوں اپنا کرتے ہیں
بمجبوری گلے کو کاٹتے ہیں تم پہ مرتے ہیں
رہ ِپر خوفِ الفت میں قدم اے رندؔ دھرتے ہیں
سسکتے ہیں پڑے عاشق نہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
گلی سے یار کے آگے قدم مشکل سے بڑھتا ہے
زمیں پاؤں پکڑتی ہے ادھر سے جب گذرتے ہیں
نہ پہنیں پیرہن خاکستری کیوں صورت ِقمری
محبت کا کسی خوش قد کے دم ہم بھی تو بھرتے ہیں
رہ ِہموارِ الفت میں قدم رکھ بے محابا تو
وہی کھاتے ہیں منہ کی جو جھجک کر پاؤں دھرتے ہیں
اٹے ہیں خاک میں عشاق موئے سر پریشاں ہیں
نہاتے ہیں وہ اپنے بال دھوتے ہیں نکھرتے ہیں
محیطِ عشق سے ساحل تلک اللہ پہنچاوے
بٹھائے دیتی ہےتہ تو قضا جوں جوں ابھرتے ہیں
چلو تم بھی شہیدانِ محبت کے مزاروں پر
زیارت کو فرشتے آسمانوں سے اترتے ہیں
بحمداللہ محبت دونوں جانب سے برابر ہے
وہ ہم پر جان دیتے ہیں اگر ہم ان پہ مرتے ہیں
ہوا تحقیق ان لوگوں سے جوہیں آپ سے باہر
پتا ملتا ہے جب جویا ترے خود سے گذر تے ہیں
گمانِ زلف سے نظارۂ سنبل نہیں کرتے
ہمیں کاٹا ہے جب سے سانپ نے رسی سے ڈرتے ہیں
بنایا چاہتے ہیں دیر میرے خانۂ دل کو
یہ بت اللہ اکبر گھر خدا کے گھر میں کرتے ہیں
تعلق حسرت پرواز کا تاقطع ہوجائے
گرفتارِ قفس منقار سے خود پر کترتے ہیں
خیال ِخام ہے ہم پختہ مغزانِ جنوں بہلیں
بھلا ناصح کسی سے ایسے بگڑے بھی سنورتے ہیں
نہیں معلوم انہیں کیا حال میری بےقراری کا
غلط کہتے ہیں دم دیتے ہیں جھوٹے ہیں مکرتے ہیں
لگا ہے روگ اب تو عشق کا اس جانِ مضطر کو
جو ہوگی زندگی بچ جائیں گے بالفعل مرتے ہیں
ہوا ہے راہ ورسمِ نامۂ و پیغام غیروں سے
ہمیں بھی آپ کے اخبار کے پرچے گذرتے ہیں
بنے اس شوخِ بے پروا سے اب کے یا بگڑ جائے
مشیر اب کچھ نہ کہہ جو دل میں آتا ہے وہ کرتے ہیں
تمہارا روٹھنا ہر بار کا اچھا نہیں دیکھو
برے ہیں ہم جو دل پر رکھتے ہیں وہ کر گذرتے ہیں
شریک بزم میں گو دوستوں کے پاس ِخاطر سے
نہ سمجھو ان کو رندوں میں کسی پر رندؔ مرتے ہیں
مأخذ :
- کتاب : دیوان رند (Pg. 96)
- Author : سید محمد خان رندؔ
-
مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ
(1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.