آب زیادہ کس میں ہے چشمک باہم ہوتی ہے
دلچسپ معلومات
زمانہ ۔کانپور۔ جنوری ۱۹۲۶ ء)
آب زیادہ کس میں ہے چشمک باہم ہوتی ہے
میری آنکھ میں آنسو ہے تیرے کان میں موتی ہے
شمع فسردہ بجھتی ہے سونی محفل ہوتی ہے
حسرت بیٹھی دل میں اب جاں کو میرے روتی ہے
موتی سی وہ آب کہاں آنسو کالا موتی ہے
شاید میری ہجر کی شب منہ کی سیاہی ہوتی ہے
میری آنکھ کا تارا ہے آنسو میری قسمت کا
قسمت کو میں روتا ہوں قسمت مجھ کو روتی ہے
زخم جگر کی بخیہ گری اب ہے مژہ کی سوزن سے
حق میں ہمارے بڑھ بڑھ کر اور یہ کانٹے بوتی ہے
ساحل تہ سے دور سوا تہ ساحل سے دور سوا
قسمت قعر سمندر میں کشتی آج ڈبوتی ہے
دل پر نقش مہر و وفا دو دن کی تو بات نہیں
کوئی بھی ہو دل میں جگہ ہوتے ہوتے ہوتی ہے
کعبے آ کر شیخ حرم نام نہ لے پھر جانے کا
آؤ بھگت مے خانے میں زاہد اتنی ہوتی ہے
جان چھڑانا مشکل ہے ظالم آج قیامت کو
تیری چال کے فتنوں نے کیسی آفت جوتی ہے
پی پی کر میں روتا ہوں رو رو کر میں پیتا ہوں
داغ جو کوئی پڑتا ہے توبہ دامن دھوتی ہے
پر خم زلف کو سودا ہے بل کم ہوتے جاتے ہیں
اب دل لے لے کر کچھ اور گرہ سے کھوتی ہے
ہاتھ پر اپنے ہاتھ دھرے حشر کے دن چپ بیٹھا ہوں
اشک ندامت امنڈے ہیں توبہ دامن دھوتی ہے
حد سے بڑھی تاثیر جنوں سر تا پا تصویر جنوں
شکل ریاضؔ اب دیکھیں کیا دیکھ کے وحشت ہوتی ہے
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 107)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.