صاحب توحید کو تلوار کی حاجت نہیں
صاحب توحید کو تلوار کی حاجت نہیں
زخمیٔ مژگاں کو کچھ سوفار کی حاجت نہیں
کشتۂ معشوق کو گفتار کی حاجت نہیں
عاشق گلفام کو گلزار کی حاجت نہیں
جب دوئی دل سے گئی اور دل ربا دیکھا عیاں
ڈال کر گل کو گلے میں خار کی حاجت نہیں
عاشق حق حق ہوئے ہیں چھوڑ کر خودی و گماں
عشق کے ماروں کو کچھ پندار کی حاجت نہیں
مذہبوں کا شور و شر ہے منزل اول تلک
معرفت میں جا کے پھر اطوار کی حاجت نہیں
کہہ انا الحق دم بدم اے مرد حق منصور وش
جب جدا تن سے ہوا پھر دار کی حاجت نہیں
دل کو دلبر سے لگا کر بند چشم و گوش و لب
سر جاناں دیکھ کر تکرار کی حاجت نہیں
کہہ دیا فرعون نے بھی میں خدا کر کے خودی
ہو کے بے خود جب کہے انکار کی حاجت نہیں
جب خدا واحد کہو گے اور کچھ اس جا نہیں
ہے خلا جیوں ایک کچھ دیوار کی حاجت نہیں
آشنائے حق جہاں میں ہیں ہمیشہ بے نیاز
صاحب اکسیر کو زردار کی حاجت نہیں
عاشقوں کا دل جلے اور دل ربا دل شاد ہیں
کون بیدل ہے جسے دل دار کی حاجت نہیں
قید ہو زلف صنم سے ہو گئے سب سے رہا
عاشقوں کو سبحہ و زنار کی حاجت نہیں
جب تلک ملتا نہیں وہ اہل صورت ہے الم
یار کو مل صورت دیوار کی حاجت نہیں
مسجد و دیر و حرم گرجا کنشت اور کیا بہشت
لے گلے میں گل بدن گلزار کی حاجت نہیں
جو دوا کھاتا نہیں کہنا نہ مانے بید کا
اہل حکمت کو بھی اس بیمار کی حاجت نہیں
عارفؔ اللہ جہاں ہیں بس وہاں ہے شاد و خوش
دوست جنگل میں ملے بازار کی حاجت نہیں
- کتاب : دیوان عارفؔ (Pg. 65)
- Author : کشن سنگھ عارفؔ
- مطبع : چشمۂ نور پریس، امرتسر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.