سایہ افگن ہو جو وہ زلف معنبر آگ میں
سایہ افگن ہو جو وہ زلف معنبر آگ میں
دود پیچاں بن کے سنبل ہو معطر آگ میں
کام پروانہ کا جل جانا ہے اڑ کر آگ میں
منہ ہے کیا اے شمع جو مارے مگس پر آگ میں
رزق دونوں کو ہی پہنچاتا ہے وہ روزی رساں
آب میں رہتی ہے ماہی اور سمندر آگ میں
مجھ کو سوجھے ہے کہ تو آتش خوں سے مل کے آہ
جھونک دے گا ایک دن اے دل مقرر آگ میں
دیکھے تبخالے وہ آ کر اخگر لب پر ترے
گر نہ دیکھے ہو کسی نے کان گوہر آگ میں
آتش دوزخ کا ہم تر دامنوں کو کیا ہے خوف
واعظا جلتی نہیں ہے ہیزم تر آگ میں
تپتی ہے یک جرعۂ مے ہو گیا سینہ کباب
فرق کیا اس آب میں ہے اور دلبر آگ میں
ڈھاک ہے جنگل میں پھولا یا ترے آہوں سے قیس
جل رہے ہیں یک قلم اشجار بے بر آگ میں
آتشی شیشے میں ساقی بادۂ گلنار بھر
کیا عجب آتش مرے کا ہو گزر گر آگ میں
تفتہ جاں مر کر ترے گو سیم تن مٹی ہوئے
تو بھی پر جلتے ہیں بن کر کورہ زرگر آگ میں
کیوں نہ ٹوٹے چاک پر گرداب کے جام حباب
ساقیا ہوتا ہے پختہ رہ کے ساغر آگ میں
کہہ دو اس مطرب پسر سے نالۂ دیپک اثر
کھینچ کر چلتا ہے کوئی تیرا مضطر آگ میں
موم آسا عشق نے تیرا ہی دل پگھلا دیا
ہو گیا آخر کو پانی دیکھ پتھر آگ میں
اور کر تحریر گرم اس سے غزل اب اے نصیرؔ
تا سخن چیں خاک ہوں جوں شمع جل کر آگ میں
- کتاب : انتخاب کلیات شاہ نصیرؔ مرتب حافظ محمد اکبر (Pg. 61)
- Author : شاہ نصیرؔ
- مطبع : اعلیٰ پریس میرٹھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.