سب کو الجھائے ہوئے ہے زلف پیچاں ان دنوں
سب کو الجھائے ہوئے ہے زلف پیچاں ان دنوں
کون سنتا ہے مرا حال پریشاں ان دنوں
ہو رہا ہوں محو دید روئے جاناں ان دنوں
کیوں نہ ہوں پھر صورت آئینہ حیراں ان دنوں
مصحف رخ نور افشانی سے بیضاوی ہوا
ہو گئے کیا متحد تفسیر و قرآں ان دنوں
ساحت دل آئینہ ہے اور آنکھیں دوربیں
کیوں نظر آتا نہیں پھر روئے جاناں ان دنوں
رات دن گوشے میں کب تک عشق لیلائے جمال
بن کے مجنوں کیجیے سیر بیاباں ان دنوں
اب سکندر پور رشک خطۂ شیراز ہے
لائے ہیں تشریف استاد سخن داں ان دنوں
لکھنؤ کی شاعری منسوخ ہے اس دور میں
رشک ناسخؔ ہے ہر اک طفل دبستاں ان دنوں
شاعران دہر کو اب ہے پریشانی نصیب
کرتے ہیں استاد اکملؔ جمع دیواں ان دنوں
اک جگہ رہنے نہیں دیتی زمانے کی ہوا
ہو رہا ہوں مثل اوراق پریشاں ان دنوں
رات دن عاجزؔ نوازی ان کو اب منظور ہے
کیوں نہ ہو پھر بستۂ زنجیر احساں ان دنوں
- کتاب : دیوان عاجزؔ مسمیٰ بہ فیض روح القدس (Pg. 62)
- Author : ابراہیم عاجز
- مطبع : نامی پریس، لکھنؤ (1934)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.