طالبِ دید ہوں میں ازل سے آج تو رخ سے پردہ ہٹا لو
طالبِ دید ہوں میں ازل سے آج تو رخ سے پردہ ہٹا لو
میری نظروں کا بھی ظرف دیکھو اپنے جلووں کو بھی آزمالو
آج اے مسجدو تم سے ہٹ کر اور تم سے بھی بچ کر شِوالو
سرجھکانا ہے اک نقشِ پا پر، کشمکش میں مجھے تم نہ ڈالو
رقصِ بسمل اگر دیکھنا ہے کر لو پوری یہ حسرت بھی لیکن
لوگ تم کو ہی قاتل نہ کہہ دیں خوں کے چھینٹوں سے دامن بچا لو
غم کا اظہار چہرے سے ہونا یہ بھی توہین ہے عاشقی کی
عشق کی آبرو ہے اسی میں مسکراہٹ میں ہر غم چھپا لو
شمع بھی یک بہ یک بجھ گئی تھی چاند بھی دفعتاً چھپ گیا تھا
تم بڑے وقت پر کام آئے اے مرے آنسووں کے اجالو
میرا دعویٰ ہے یہ میرا دعویٰ عمر بھر تم کو رونا پڑے گا
ایک بیکس کی مجبوریوں پر مسکرا کر گزرجانے والو
اے صباؔ یہ خموشی ہے کیسی کب سے آکر وہ بیٹھے ہوئے ہیں
اُن سے شکوہ ہو، یا شکر یہ ہو دل میں جو بات ہے کہہ بھی ڈالو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.