یہ کیا راز ہے ساقِی مست و بیخود کہ اب تو نے چشمِ عنایت ہٹا لی
یہ کیا راز ہے ساقِی مست و بیخود کہ اب تو نے چشمِ عنایت ہٹا لی
وہی میکدہ ہے مگر، سونا، سونا وہی جام و مینا مگر خالی خالی
گلوں سے لطافت، ستاروں سے تابش گھٹاؤں سے مستی کلی سے حیالی
غرض اس طرح کرکے اجزا فراہم تصور میں ہم نے قیامت بلالی
وہ خلدِ نظر ان کے پُر نور عارض وہ گیسوئے مشکیں گھٹا جیسے کالی
وہ بد مست مدہوش مخمور آنکھیں کہ شیشوں نے جیسے گلابی اچھالی
نظر سہمی سہمی قدم ڈگمگائے وہ فتنے جگاتے چلے آرہے ہیں
سلامت رہے اُن کی محشر خرامی مبارک ہو اے دل تجھے پائمالی
کسی روز دیکھو نگاہیں اٹھا کر وفائے محبّت کا رنگین منظر
برنگِ شفق نیلگوں آسماں پر ابھرتی ہے خونِ شہیداں کی لالی
نگاہوں کا ہوتے ہی اُن سے تصادم یکا یک فضاؤں میں گونجا ترنم
ادھر عشق نے بربطِ دل کو چھیڑا اُدھر حسن نے اپنی پائل سنبھالی
یہ کون آج آتا ہے سوئے گلستاں معطر معطر خراماں خراماں
بہاریں ہیں کیوں اپنی قسمت پہ نازاں یہ کیوں وجد میں ہے صباؔ ڈالی ڈالی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.