کلیجہ منہ کو آتا ہے کریں تم سے بیاں کیوں کر
کلیجہ منہ کو آتا ہے کریں تم سے بیاں کیوں کر
نہ پوچھو ہم صفیروں ہم سے چھوٹا آشیاں کیوں کر
ذرا دیکھیں بدل جاتا ہے دورِ آسماں کیوں کر
کسی کے حال پر ہوتا ہے کوئی مہرباں کیوں کر
ہمیں توغم سے اتنی بھی نہیں فرصت کہ یہ سوچیں
محبت میں ہوا کرتا ہے کوئی شادماں کیوں کر
تمہیں تو نیند کا شکوہ ہے لیکن مجھ کو حیرت ہے
سلامت رہ گیا نالوں سے میرے آسماں کیوں کر
کسی پر عمر بھر کی کس طرح مشقِ ستم تم نے
ذرا سوچو تو دل میں اور لوگے امتحاں کیوں کر
چمن میں ایک مدت ہم نے مشق گلفشانی کی
قفس تک آتے آتے آ گئی طرزِ فغاں کیوں کر
نہ ہم ہوں گے نہ گلشن میں ہمارا آشیاں ہوگا
بنے گی بجلیاں آ کر چراغِ آشیاں کیوں کر
میں زار و ناتواں مثلِ تصور عرش پیما ہوں
بچے گا میرے سجدوں سے کسی کا آستاں کیوں کر
کلیجے کی طرح جس کو جگہ دی ہم نے سینے میں
وہی دل بن گیا ہے آج ان کا ہم زباں کیوں کر
کسی دن آنکھ سے آکر ذرا تم دیکھ تو لیتے
کیا کرتا ہے کوئی ہجر میں آہ و فغاں کیوں کر
نہ گلچیں ہیں نہ فصل گل ہیں نذرِ دام ہونا ہے
چمن سے جا کے پھر آئیں گے ہم اے باغباں کیوں کر
جو حالت دل کی ہے وہ رنگِ رُخ اڑ اڑکے کہتا ہے
چھپائیں ہم اسے بھی صورتِ دردِ نہاں کیوں کر
اُڑاتا ہے نشانہ دل کا وہ ناوک فگن صفدرؔ
نزاکت دیکھتی ہے منہ کو کھنچتی ہے کماں کیوں کر
- کتاب : عالمگیر، خاص نمبر (Pg. 82)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.