Font by Mehr Nastaliq Web

کلیجہ منہ کو آتا ہے کریں تم سے بیاں کیوں کر

صفدر مرزاپوری

کلیجہ منہ کو آتا ہے کریں تم سے بیاں کیوں کر

صفدر مرزاپوری

کلیجہ منہ کو آتا ہے کریں تم سے بیاں کیوں کر

نہ پوچھو ہم صفیروں ہم سے چھوٹا آشیاں کیوں کر

ذرا دیکھیں بدل جاتا ہے دورِ آسماں کیوں کر

کسی کے حال پر ہوتا ہے کوئی مہرباں کیوں کر

ہمیں توغم سے اتنی بھی نہیں فرصت کہ یہ سوچیں

محبت میں ہوا کرتا ہے کوئی شادماں کیوں کر

تمہیں تو نیند کا شکوہ ہے لیکن مجھ کو حیرت ہے

سلامت رہ گیا نالوں سے میرے آسماں کیوں کر

کسی پر عمر بھر کی کس طرح مشقِ ستم تم نے

ذرا سوچو تو دل میں اور لوگے امتحاں کیوں کر

چمن میں ایک مدت ہم نے مشق گلفشانی کی

قفس تک آتے آتے آ گئی طرزِ فغاں کیوں کر

نہ ہم ہوں گے نہ گلشن میں ہمارا آشیاں ہوگا

بنے گی بجلیاں آ کر چراغِ آشیاں کیوں کر

میں زار و ناتواں مثلِ تصور عرش پیما ہوں

بچے گا میرے سجدوں سے کسی کا آستاں کیوں کر

کلیجے کی طرح جس کو جگہ دی ہم نے سینے میں

وہی دل بن گیا ہے آج ان کا ہم زباں کیوں کر

کسی دن آنکھ سے آکر ذرا تم دیکھ تو لیتے

کیا کرتا ہے کوئی ہجر میں آہ و فغاں کیوں کر

نہ گلچیں ہیں نہ فصل گل ہیں نذرِ دام ہونا ہے

چمن سے جا کے پھر آئیں گے ہم اے باغباں کیوں کر

جو حالت دل کی ہے وہ رنگِ رُخ اڑ اڑکے کہتا ہے

چھپائیں ہم اسے بھی صورتِ دردِ نہاں کیوں کر

اُڑاتا ہے نشانہ دل کا وہ ناوک فگن صفدرؔ

نزاکت دیکھتی ہے منہ کو کھنچتی ہے کماں کیوں کر

مأخذ :
  • کتاب : عالمگیر، خاص نمبر (Pg. 82)

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے