گلے شکوے کریں گے ظلم کے اب اس ستم گر سے
گلے شکوے کریں گے ظلم کے اب اس ستم گر سے
کہو پھر کیا کرے کوئی جو اونچی ہو گئی سر سے
ہمیں درد و الم کم ہی ملے ہوں گے مقدر سے
مگر پھر بھی بہت روئے بہت تڑپے بہت ترسے
طبیعت بجھ گئی جب سے ترے دیدار کو ترسے
اگر اب نیند بھی آتی ہے اٹھ جاتے ہیں بستر سے
برا ہو یا الٰہی اضطراب قلب مضطر کا
نہ رہ سکتا ہوں بستر پر نہ اٹھ سکتا ہوں بستر سے
لیا جب چاہنے کا نام فرمایا بڑے چاہا
ترسنے کا کیا جب ذکر فرمایا بڑے ترسے
بہار آئے تو یا رب ہر کلی گلزار ہو جائے
بڑی حسرت میں گزری اب کے اک اک پھول کو ترسے
کسی کا خط کہاں ہم نے تو بے پر کی اڑائی تھی
مگر لوگوں کو دیکھو چھٹ گئے دل میں کبوتر سے
نہ جانے رہ گئی بھولے سے دل میں کون سی حسرت
کوئی رہ رہ کے گویا چیرتا ہے دل کو نشتر سے
ہمیں معشوق کو اپنا بنانا تک نہیں آتا
بنانے والے آئینہ بنا لیتے ہیں پتھر سے
زباں سے آہ نکلی دل سے نالہ آنکھ سے آنسو
مگر اک تیری دھن ہے جو نکلتی ہی نہیں سر سے
ارے نادان سچا چاہنے والا نہیں ملتا
وہ لیلیٰ تھی کہ جس کو مل گیا مجنوں مقدر سے
ملن ساری بھی سیکھو جب نگاہ ناز پائی ہے
مری جاں آدمی اخلاق سے تلوار جوہر سے
خدا کی شان مطلب آشنا ایسے بھی ہوتے ہیں
بتوں نے بن کے بت سجدہ کرایا پہلے بت گر سے
صفیؔ کو مسکرا کر دیکھ لو غصہ سے کیا حاصل
اسے تم زہر کیوں دیتے ہو جو مرتا ہے شکر سے
- کتاب : گلزار صفی (Pg. 152)
- Author : صفیؔ اورنگ آبادی
- مطبع : گولڈن پریس، حیدرآباد (1987)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.