جوانی نہیں بن سنورنے کے دن
جوانی نہیں بن سنورنے کے دن
جھجھکنے کی راتیں ہیں ڈرنے کے دن
عیادت کو وہ آکے یہ کہہ گیا
ابھی دور ہیں تیرے مرنے کے دن
تصدق ترے بد گمانیٔ عشق
صفائی ہوئے ان سے مرنے کے دن
تمہارے نہ ملنے سے کیا ہو گیا
گزر ہی رہے ہیں گزرنے کے دن
شباب اور پھر دلبروں کا شباب
نگاہوں کے صدقے اترنے کے دن
کسی کی عنایات کا دور ہائے
وہ باتوں میں راتیں گزرنے کے دن
جوانی گئی اور لے کر گئی
کسی بات سے جی نہ بھرنے کے دن
نہ بھولیں گے جنت میں بھی یہ سماں
کسی کا شباب اپنے مرنے کے دن
غنیمت ہے صاحب سلامت تیری
رہے اب کہاں بات کرنے کے دن
مری شکل سے کوئی بیزار ہے
یہ جینے کے دن ہیں نہ مرنے کے دن
صفیؔ اب زمانہ ہے نازک بہت
یہ ہیں اپنے سائے سے ڈرنے کے دن
- کتاب : گلزار صفی (Pg. 78)
- Author : صفیؔ اورنگ آباد
- مطبع : گولڈن پریس، حیدرآباد (1987)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.