کشتیٔ محبت اے ساغر یوں پار لگائے جاتے ہیں
کشتیٔ محبت اے ساغر یوں پار لگائے جاتے ہیں
طوفاں کو سمجھتے ہیں ساحل موجوں میں نہائے جاتے ہیں
دشوار جو تھی راہِ الفت آسان بنائے جاتے ہیں
کانٹوں میں بھی چلتے رہتے ہیں دامن بھی بچائے جاتے ہیں
بخشی ہے شبِ غم بھی مجھ کو جلوہ بھی دکھائے جاتے ہیں
وہ مجھ سے بظاہر دور بھی ہیں نزدیک بھی آئے جاتے ہیں
دانستہ بھلا دینے والے خود یاد بھی آئے جاتے ہیں
ہم ہیں کہ دہکتا انگارہ سینے میں لگائے جاتے ہیں
وہ حسبِ ارادہ چھپ چھپ کر یوں سامنے آئے جاتے ہیں
اک آگ لگائے جاتے ہیں اک آگ بجھائے جاتے ہیں
آنکھوں کی حسیں نظریں بن کر وہ سامنے آئے جاتے ہیں
بنتے ہیں بڑے پردے والے اور سامنے آئے جاتے ہیں
بے تاب محبت میں تو رہوں اور ان کا تماشہ عام نہ ہو
آنکھیں بھی ملائے جاتے ہیں پہلو بھی بچائے جاتے ہیں
اپنی ہی طبیعت مجرم ہے رفتارِ زمانہ کیا کہیے
ہم دوست بھی بنتے جاتے ہیں دشمن بھی بنائے جاتے ہیں
اک میرا نشیمن میرا ہے اور سارا گلستاں ان کا ہے
بجلی بھی گرائے جاتے ہیں اور شاخیں بھی بچائے جاتے ہیں
سو بار جہاں کھائی ٹھوکر پھر عزم وہیں کا ہے ساغرؔ
امید پہ دنیا فاتح ہے پھر آس لگائے جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.